پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ گندم سے جڑا ہے یعنی ان کے اخراجات گندم کی کمائی سے پورے ہوتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہی پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ جو گندم سے جڑا ہے یہی پھل دار درختوں سے جڑ جائے تو کیا حرج ہے؟ طاقت ور ترین غذا بھی میسر ہو گی اور طاقت ور آب و ہوا بھی۔ بیماریوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا۔ اور جو صنعتی ممالک ہیں خود کاشت نہیں کر سکتے مگر دوسرے ملکوں سے مکمل غذا امپورٹ کرتے ہیں ان ملکو ں کو پھل ایکسپورٹ کر کے آمدن بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اب اس میں تو آپ کے تشفی ہو گئی جواب آپ کو مل گیا۔
دوسرا سوال آپ کا یہ کہ چاول گندم کپاس وغیرہ کو پھلوں سے ریپلیس کرنا تو بتدریج ہم یہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یعنی پھل دار درخت ہی ان کی جگہ ہونے چاہئیں گویا خوراک تبدیل ہو جائے گی اور گندم چاول وغیرہ بتدریج ختم ہو کر پھل پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔
جواب ابھی جاری ہے۔
آپ کی آخری بات کا جواب کہ کافی پھل دار درخت صرف شمالی علاقوں میں ہوتے ہیں تو جناب آپ کی بات آج سے کچھ عرصہ قبل تک درست تھی مگر اب ایسا ممکن ہے کہ آپ کافی پھل مختلف ایسی جہگوں پر بھی اگا سکتے ہیں جہاں کچھ عرصہ قبل تک ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر ہم کچھ دیر کے لیے اس بات کو چھوڑ کر بات کرتے ہیں کہ جو پھل شمالی علاقوں اور کشمیر وغیرہ میں اگا ئے جاتے ہیں وہ آخر وہاں ہی کیوں اُگتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کے ٹھنڈے اور معتدل موسم کی وجہ سے تو جب پنجاب جیسے گرم علاقوں میں درختوں خاص طور پر پھل دار درختوں کی بہتا ت ہو جائے گی تو یہاں کا موسم اعتدال پر آ جائے گا۔
بارشیں ہونا شروع ہو جائیں گی اور زمین سبزہ اگانا شروع ہو جائے گی۔ تو سمجھیں کہ پھر کیا ہوگا؟ موسم ایسا ہو جائے گا کہ کئی اور اقسام بھی خوب شان و شوکت سے اُگیں گی جو اب صرف ٹھنڈے علاقوں میں اگانا ممکن ہیں۔
بارشوں کی وجہ سے زیر زمیں پانی کی سطح بلند ہو جائے گی جو اب زراعت کی وجہ سے بہت نیچے جاتی جا رہی ہے۔ پھر پانی کی سطح بلند ہو گی جو درختوں کے لیے مزید بہترین ہو گی۔ زیر زمین کلر ذدہ زہریلا پانی صاف اور صحت افزا ہو جائے گا۔
اس کے بعد بھی اگر پھلوں کی چند اقسام صرف مخصوص علاقوں ہی میں پیدا ہوئیں تو آپ اپنے علاقے کے پیدا شدہ پھلوں سے ان کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں دوسرے ملکوں میں تو پھل بھیجے ہیں جائیں گے اس کے ساتھ آپ حاصل شدہ آمدنی سے ایسے پھل بھی کھا سکیں گے جو آپ کے علاقے میں نہیں ہوتے بالکل ایسے ہی جیسے آج آپ گندم اُگا کر بیچ کر دالیں وغیرہ لیتے ہیں یا گندم بیچ کر مکئی لیتے ہیں۔
جب ذراعت ختم ہو کر اعلی ترین خوراک یعنی پھلوں کے باغات ہر طرف ہوں گے تو آپ تپتی دوپہروں میں گندم کاٹ کر خون پسینہ ایک کرنے کے بجائے اپنے باغات میں ٹھنڈے میٹھے موسم میں گھومتے پھرتے ہر طرح کے پھل سے لطف اندوذ ہو سکیں گے۔ پھلوں معتدل موسم اور اچھی آب و ہوا کی وجہ سے انسان خوبصورت ترین پیدا ہو گے۔
اور اس بات کا تو آج بھی آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو لوگ پھل بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور پھلوں کے تازہ جوس استعمال کرتے ہیں ان کے چہرے تروتازہ شاداب اور تازہ خون کی سرخی لیئے ہوتے ہیں۔ ان کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور وہ زیادہ عرصہ تک جوان رہتے ہیں۔۔ بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کے جب ہر انسان کی خوراک ہی تازہ اور اپنے پھل ہو جائیں گے تو تب کیا صورت حال ہو گی۔
ایک کمنٹ میں آپ نے پوچھا ہے کہ جو لوگ عرصہ تک گندم کی روٹی استعمال کرتے ہیں اور دل کے امراض میں مبتلا اور متلون مزاج اور گرم مزاج وغیرہ ہوتے ہیں یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے اور اس بات کی ضمانت تو آپ کو ہر کوئی دے گا کہ اگر آپ کی خوراک میں کثیر تعداد میں پھل شامل ہو تو آپ ان بیماریوں سے بچے رہیں گے تو اگر مستقل خوراک ہی پھل ہو جائیں تو پھر سوچیں کے ایسی کیا کئی اور بھی بیماریوں سے آپ بچیں گے۔ اور یہ اللہ تعالی کی مخلوق اور یہ زمین بھی آپ کا شکریہ ادا کرے گی اور شکریہ کے طور پر ان گنت پھل آپ کی خدمت میں پیش کرتے گی جنہیں آپ کھا کر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے چلے جائینگے۔
مستقبل میں پانی کی تقسیم پر جنگیں ہونے والی ہیں جن میں سر فہرست پاکستان بھارت کی جگیں ہوں گی ان جنگوں میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں مگر پانی کے مسائل پھر بھی نہیں حل ہوں گے۔ پانی کے مسلےکے واحد حل نظام باغات میں چھپا ہے آپ یہ نظام اپنائیں تو موسم اور یہ زمین و آسمان آپ کے شکریہ کے طور پر بارشیں بھی برسائے گا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اوراس کا مطلب ہے کہ یہ مخلوقات انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست جگہ پر لائے تو یہ ساری مخلوق انسان کو صحیح معنوں میں فائدہ پہنچانا شروع کر دے گی۔ بس ہم اس زمیں سے دشمنی چھوڑ دیں اور وہ نظام یعنی نظام باغات اپنائیں جس اس زمین کے فائدے میں ہے۔
تحریر : نواز بزمی
سیکریٹری نشرو اشاعت
آپ آدمی پارٹی پاکستان.