..آپ آدمی پارٹی منشور

منشور
ریاست۔ ایک ماں

معاشی نظام :
ا۔ چونکہ روزی کا سرچشمہ زمین ہے اور تمام قسم کی خوراک زمین سے حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ کسی انسان یا انسانوں کے گروہ کی ذاتی ملکیت میں نہیں دی جاسکتی بلکہ تمام زمین اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملکیت ہے اور ہمارے اس منشور کے مطابق یہ زمین بطور امانت ذمہ داران ریاست کے پاس ہو گی جو تمام افراد معاشرہ کو ان کی ضرورت کے مطابق زمین کی تقسیم کے ذمہ دار ہوں گے۔
ب۔ نظام زراعت کو بتدریج چھوڑتے ہوئی نظام باغات کو روئے زمین پر رائج کیا جائے گا تا کہ قرآن پاک میں مومنین کی Heavenly Living کا جو تصور دیا گیا ہے اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور دور حاضر میں انسانیت کو درپیش گلوبل وارمنگ جیسے عظیم خطرات سے نمبٹا جاسکے۔

سیاسی نظام : حق حاکمیت صر ف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے اور کسی انسان کو حق حاکمیت حاصل نہیں۔

ا۔ مساجدکو ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا جائے گا جو کہ صدر اول کے اسلام میں مساجد کو حاصل تھا یعنی ہر محلے یا ٹائو ن کی مسجد میں اُس محلے یا ٹائون کی افراد کا اجتماع اور مسائل پر بحث و مباحثہ کر کے اُ ن کا حل نکالا جائے گا۔حتی کے نکاح کی تقریبات و دیگر اجتماعات بھی مساجد میں ہو ں گی۔
ب۔ مساجد کا کنٹرول پرائیویٹ لوگوں یا گروہوں سے واپس لے کرریاست براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے گی۔ کسی بھی مسجد کو چند ہ نہیں دیا جائے گا۔مساجد
کے تما م اخراجات ریاست کی ذمہ داری ہوں گے۔مساجد کے نگران دینی اور دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین ہو ں گے۔
ج۔ مقامی پنچائیت سسٹم قائم کیے جائیں گے اور افراد معاشرہ کے باہمی تنازعات کا فیصلہ مقامی پنچائیت سسٹم کے تحت مساجد میں ہو گاجس سے پولیس مقدمات،عدالتیں اور جیلیں کم ہو جائیں گی۔
د۔ شرعی سزائیں نافذ ہو ں گی یعنی چوری ثابت ہونے پرعادی چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اسی طرح خون کا بدلہ خون، آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کرپشن اور ملاوٹ کا خاتمہ کیا جائے گا اور یقین مانئیے کے محض چند ہاتھ کلائی سے جدا ہوں گے اور پھر کوئی چوری کی جرات نہیں کرے گا۔
ر۔ مغربی جمہوریت کے مستعار شدہ تصور کے بجائے امانت داران کا انتخاب اُن کے ذاتی کردار کو دیکھ کر افراد معاشرہ کی رائے سے ہوگا۔مقامی لوکل پنچائیت اپنے مقامی نمائندیااچھے کردار کی بنیاد پر خود منتخب کرے گی اور یہی اچھے کردار کے حامل نمائندے اپنے سے اعلیٰ کردار کے مالک افراد کو ضلعی ، صوبائی اور مرکزکے نمائندوں کے طور پر منتخب کریں گے یہ تمام افراد محض امانت دار کہلائیں گے حکمران نہیں۔
س۔ کوئی شخص ازخود کسی عہدے کا طلب گا ر نہیں ہو گا نہ ہی خواہش رکھے گا۔ عہدے کی خواہش رکھنے والے کو عہدہ ہرگز نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کے برعکس عہدے کے لیے ایسے باکردار افراد کو ذمہ داری سونپی جائے گی جو مطلق اس کی خواہش نہ رکھتے ہوں۔مقامی پنچائتوں اور کمیٹیوں کی اکیاون فیصد رائے پر کسی بھی امانت دار بشمول امانت دارِ اعلیٰ کو اس کے عہدے سے ہٹایا جا سکے گا۔
سماجی نظام :
ا۔ صحت: تمام افراد معاشرہ کو صحت کی سہولیات یکساں اور مفت فراہم کی جائیں گی یعنی ڈاکٹر سے لے کر دوا تک سب مفت ہو گا۔ اور ڈاکٹر ز کی پرائیویٹ پریکٹس اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو بند کیا جائے گا۔اور ڈاکٹرز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تنخواہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔
ب۔ محکمہ جنگلات کو ختم کر کے محکمہ باغات قائم کیا جائے گااور پورے پاکستان کو حقیقی معنوں میں گرین پاکستان بنایا جائے گا۔
ج۔ پورے ملک میں کوئی شخص وی آئی پی نہیں ہو گا سوائے ان افراد کے جنہوں نے ازخود شوق سے درخت لگا کر پروان چڑھائے ہوں۔ایسے افراد کو معاشرہ میںبلند مرتبہ اور خصوصی حیثیت دی جائے گی۔
د۔ بڑے شہروں کے پھیلائو کو روکا جائے گا اور چھوٹے شہر آباد کئے جائیں گے۔جو ہر لحاظ سے خود کفیل ہو ں گے۔
ر۔ ایسا نظام وضع کیا جائے گا کہ ہر شخص کو وہیں روزگار ملے گا جہا ں اس کی رہائش ہو گی۔

تعلیمی نظام:
ا۔ تمام افراد معاشرہ کو جہاں تک وہ چاہیں تعلیم مفت فراہم کی جائے گی۔
ب۔ پرائیویٹ سکولز سسٹم کو یکسر ختم کر دیا جائے گا۔
ج۔ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام ہو گا اور اُساتذہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق معاوضہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔
د۔ قومی زبان اردو کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے گا
ر۔ عربی زبان کی تعلیم لازمی ہو گی۔
س۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل بھرپور طریقے سے کیا جائے گا اور تمام اداروں کوصحیح معنوں میں عوام کے مفاد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

خارجہ پالیسی:

ا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی وہی ہو گی جو کسی آزاد اور خود مختار ملک کی ہوتی ہے۔ قومی مفاد ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا۔
ب۔ مقبوضہ کشمیر پر معذرت خواہانہ رویہ ترک کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر مظلوم کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی مدد بھی کی جائے گی۔